واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ ابوعلی فارمدی

رحمتہ اللہ علیہ

 

    آپ کا نام قصیل محمد بن محمد ہے۔ طوس کے قریب فارمد نامی قصبہ میں آپ کی ولادت ۴۳۴ ہجری کو ہوئی۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ ابوالقاسم گرگانی رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے لیکن اویسی طور پر حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے فیضیاب ہوئے۔ آپ کے صاحب کمال ہونے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے مرید اور تربیت یافتہ تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

      مشہور ہے کہ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے ارادت رکھنے والوں میں چالیس ولی اللہ ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک شیخ السلام احمدجام  رحمتہ  اللہ  علیہ   اور دوسرے شیخ ابوعلی فارمدی  رحمتہ  اللہ  علیہ   مشہور ہوئے ہیں۔

                     آپ فرماتے ہیں کہ میں  ایک روز  مدرسہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھاکہ میرے دل میں حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر   رحمتہ  اللہ  علیہ   کی زیارت کی تمنا پیدا ہوئی۔ان دنوں شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   نیشا پور تشریف لائے ہوئے تھے۔بےقراری میں میں اٹھ کر باہر چلا گیا ۔جب چوک میں پہنچا تو  دیکھا کہ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   ایک بڑی  جماعت کے ساتھ  تشریف لے جا رہے ہیں۔میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا ۔ حضرت  رحمتہ  اللہ  علیہ   ایک جگہ پہنچ کر تشریف فرماہو گئے تو میں بھی ایک کونہ میں بیٹھ گیا جہاں حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی نظر مجھ پر نہ پڑتی تھی۔

                             محفل سماع شروع ہوئی اور حضرت   رحمتہ  اللہ  علیہ   کو وجد آگیا۔حالت وجد میں حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے اپنے کپڑے تار تار کر لیے۔ جب حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ  وجد کی کفیت سے باہر آئے تو مرید آپ کے لبا س کے ٹکڑے تبرک کے طور پر لینے لگے۔ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے ایک آستین  اپنے ہاتھ مین پکڑی  اور آواز دی کہ اے ابو علی طوسی کہاں ہو ۔میں نے اس خیال سے جواب نہ دیا کہ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   مجھے پہچانتے نہیں ہیں نیز میں ان کے سامنے بھی نہیں اور شائد ان کے کسی مرید کا نام بھی ابوعلی ہوگا۔آپ نے دوسری اور جب تیسری بار آواز دی تو میں سمجھ گیا کہ آپ مجھے ہی  پکار رہے ہیں۔میں آپ کے سامنے حاضر ہوا آپ نے وہ آستین مجھے مرحمت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تیرا حصہ ہے۔فوراً میرے قلب میں روشنی ظاہر ہوئی اور پھر روز بروز اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔

                         جب حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر  رحمتہ  اللہ  علیہ   نیشا پور سے تشریف لے گئے  تو میں   حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی خدمت  میں حاضر ہوا  اور اپنی کیفیت بیان کی آپ نے فرمایا مبارک ہو۔ اس کے بعد تین سال تک حصول علم میں مصروف رہا۔ایک روز میں نے قلم دوات میں ڈالی تو وہ سفید باہر نکلی۔میں وہ قلم اٹھا کر اپنے استاد حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے پاس لے گیا اور اپنی حالت بیان کی۔ حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فرمایا کیونکہ قلم نے تجھے چھوڑ دیا ہے لہذا تم بھی یہ کام چھوڑ دو اور طریقت کے کام میں مصروف ہو جاؤ۔

                     ایک دن حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   حمام میں غسل کر رہے تھے۔میں نے اٹھ کر کنوئیں  سے پانی  کے کئی ڈول لا کر حمام میں ڈال دیئے۔جب حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   حمام سے باہر آئے  تو دریافت کیا یہ کون تھا  جس نے حمام میں پانی کےڈول ڈالے۔ میں گھبرا گیا کیونکہ یہ حرکت میں نے کی تھی۔آخر جرت کرکے عرض کی حضرت یہ میں تھا۔اس پر حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فرمایا  اے ابوعلی جو میں نے ستر سال میں پایا تو نے  پانی کے ایک ڈول سے  وہ سب کچھ پا لیا  ہے۔

                        اس کے بعد کچھ عرصہ تک  حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے زیر سایہ  مجاہدہ کرتا رہا۔ ایک روز مجھ پر ایسی حالت  طاری ہوئی کہ میں اس میں گم ہو گیا۔میں نے یہ واقعہ حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا اے ابو علی  سلوک میں میری بھاگ ڈور اس مقام سے اوپر نہیں اور جو کچھ اس مقام سے اُوپر ہے اس تک میری رسائی نہیں ۔

      حضرت شیح ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی اجازت سے آپ حضرت  ابوالقاسم گرگانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ خودفرماتے ہیں کے میں طوس میں سیخ ابوالقاسم گرگانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے پاس حاضرہو تو وہ اس وقت مراقبے میں تھے۔ آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا اے بو اعلی آو کیا چاہتے ہو؟  میں نے سلام کے بعد حالات عرض کئے ۔آپ نے فرمایا تمہیں یہ ابتدا مبارک ہو گو تم کسی درجے پر نہیں پہنچے لیکن اگر تربیت پاو  گے تو بڑے درجے پاو گے۔

        اس کے بعد بو علی فرماتے ہیں کے انہوں نے مجھے طرح طرح کی ریاضت اور مجاہدہ کرایا پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے اپنی صاحبزادی کا نکاح مجھ سے کرکے اپنی دامادی میں لے لیا۔

        اس کے بعد سلوک  وتکمیل کی  منزل  طے کرنے کے بعد  حضرت  ابوالقاسم گرگانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے آپ کو واعظ کرنے کی اجازت دے دی۔حضرت ابوعلی فارمدی  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرماتےہیں کہ میں نے حضرت  ابوالقاسم گرگانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   سےبےشمارفیض پائے مگردل کی خواہش روزبروزبڑھتی جاتی تھی۔اس لئےحضرت ابوالحسن خرقانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی خدمت میں حاضرہوگیااور بے حدوحساب فیوض وبرکات سےمستفیدہوا۔

        آپ کا وصال مؤرخہ ۴ ربیع الاول ۵۱۱ ہجری یا ۴۷۷ ہجری میں ایران کے مشہور شہر طوس جسے آجکل مشہد کہا جاتا ہے، میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار طوس یعنی مشہد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔